جاگتی آنکھوں کے اک خواب نے آخر اس کو مار دیا
غزل| رباب حیدری ، بہاول پور

غزل | رباب حیدری،بہاول پور
- یہ نہ سوچا پرکھوں نے کہ مقصد تو سیرابی تھا
اب کی بار بھی آیا ہے جو ریلا وہ سیلابی تھا - فصلیں، ڈنگر، گھر کی چھت تک بہہ جانے کی خبر ملی ہے
گاؤں سے اک خط آیا تو سارا منظر آبی تھا - سرسوں چننے والی کو دوا ملی نہ غذا ملی
پیلیا اس کو نگل گیا ہے جس کا رنگ گلابی تھا - جاگتی آنکھوں کے اک خواب نے آخر اس کو مار دیا
آخری خبریں آنے تک جس کا مرض بے خوابی تھا - ٹوبھا اشکوں سے بھر جائے تو پھر ڈوبنا بنتا ہے
میں روہی کی آنکھ میں ڈوبا، کب وہ پاٹ چنابی تھا - برف سے بھاگنے والا آخر پیٹ کی دوزخ میں جا پہنچا
ہجرت جس کی موت بنی ہے پنچھی وہ ‘ مرغابی’ تھا - عشق میں اپنے سارے پتے تیرے سامنے پھینک دیئے
دل کا سمجھ کر کھیلے جس کو کھیل وہ بس اعصابی تھا - اب وہ اپنے زخم گنے یا دل پر چاہے ہاتھ رکھے
اس نے پہلے غزل کہی تھی میرا شعر جوابی تھا - تیرے ہونٹوں پر آ نے سے شعر میں جدت آتی ہے
تو نے ڈھولک پر گایا ہے جو کہ گیت ربابی تھا